Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بجلی کی پیداوار میں خود کفالت ………..محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

وفاقی حکومت نے آج سے ملک بھر کے پانچ ہزار سے زائد فیڈرز سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پانی وبجلی کے وفاقی وزیر اویس لغاری نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ملک میں دو ہزار 727میگاواٹ اضافی بجلی سسٹم میں موجود ہے۔ چار سال پہلے ملک میں بجلی کی طلب گیارہ ہزار آٹھ سو میگاواٹ تھی جبکہ پیداوار نو ہزار تین سو میگاواٹ تھی۔ ڈھائی ہزار میگاواٹ شارٹ فال کو پورا کرنے کے لئے چار سے آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جارہی تھی۔ بجلی کے مختلف منصوبوں کی تکمیل سے اب پیداوار ساڑھے نو ہزار میگاواٹ سے بڑھ کر سولہ ہزار پانچ سو میگاواٹ ہوگئی ہے۔ اور اگلے سال کے وسط تک مزید چار ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوگی۔ طلب سے زائد پیداوار کا ہدف حاصل ہونے پر ملک بھر کے پانچ ہزار 297فیڈرز سے لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیا گیا۔ تاہم دس فیصد تک لائن لاسز والے علاقوں میں دو گھنٹے اور بیس فیصد لائن لاسز والے علاقوں روزانہ چار گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری رہے گی۔ وفاقی حکومت کے اعلان کے مطابق پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے 309اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی کے 29فیڈر کو لوڈ شیڈنگ سے مکمل طور پر مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ بجلی کی پیداوار میں خود کفالت بلاشبہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے جس پر وفاقی حکومت اور بجلی پیدا کرنے والے ادارے ستائش کے مستحق ہیں۔ اب بجلی کی چوری اور لائن لاسز پر قابوپانے کے لئے بھی موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ ساتھ ہی صارفین کو بجلی کے حصول میں بھی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبہ بھر میں طویل لوڈ شیڈنگ بھی جاری ہے۔ پشاور کے نواحی علاقوں میں دس سے بارہ گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ آج بھی ہورہی ہے۔ اگر ان علاقوں کو بیس فیصد یا اس سے زائد لائن لاسز والے علاقوں میں شمار کیا جائے تب بھی روزانہ چار گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہونی چاہئے۔ بارہ گھنٹے بجلی کی فراہمی بند رکھنے کا کیا جواز ہے ؟اس کا جواب پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی اور وفاقی حکومت کو دینا چاہئے۔معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے آبی ذخائر سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔ لیکن گذشتہ چالیس سالوں کے دوران کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا۔ کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر ہوکر اب مردہ گھوڑا بن چکا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی صدائے بازگشت گذشتہ پندرہ بیس سالوں سے سنائی دے رہی ہے اب تک چار مرتبہ اس پر تعمیراتی کام کا افتتاح بھی ہوچکا ہے لیکن تختی کی نقاب کشائی سے بات آگے نہیں بڑھی۔ اگر پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کئے جاتے تو عوام کو دو روپے فی یونٹ سستی بجلی مل جاتی۔ گذشتہ چودہ پندرہ سالوں سے نیلم جہلم پراجیکٹ کے نام پر عوام سے اربوں روپے وصول کئے جاچکے ہیں۔ مگر یہ منصوبہ بھی مکمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔وفاقی وزیرنے یہ تفصیل نہیں بتائی کہ سات ہزار میگاواٹ کی بجلی کہاں کہاں سے حاصل کی گئی ہے۔ تیل، کوئلے، جوہری پلانٹس اور شمستی توانائی کے منصوبوں سے کتنی بجلی حاصل کی جارہی ہے اوروہ صارفین کو کس قیمت پر میسر ہے۔ فی الوقت عوام کو جو بجلی ملتی ہے وہ تقریبا پندرہ روپے فی یونٹ پڑرہی ہے۔ جو خطے کے دیگر ممالک کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ توانائی کی پیداوار میں خود کفالت بہت اچھی بات ہے کیونکہ ترقی کا براہ راست تعلق توانائی سے ہے۔ توقع ہے کہ بجلی کی پیداوار میں خود کفالت کے بعد ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی تاہم حکومت کو تھرمل پاور پلانٹس کی مہنگی بجلی کے بجائے ہائیڈرو پلانٹس کی سستی بجلی پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ خیبر پختونخوا میں پانی سے 30ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے جو نہ صرف پورے ملک کی موجودہ ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہے بلکہ آئندہ پچاس سالوں کی ضروریات بھی اس سے پوری ہوسکتی ہیں۔پیسکو کے چیف ایگزیکٹو نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد بجلی کی چوری روکنے ، کنڈے ہٹانے اور ادارے میں مالی بدعنوانیوں پر قابو پانے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ اگر بجلی کی پیداوار میں خود کفالت کا ثمر خیبر پختونخوا کو بھی ملا ہے تو اس صوبے کے غریب صارفین پر بھی رحم کریں اور بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ میں کمی کرکے عوام کو ریلیف پہنچائیں۔


شیئر کریں: